ہود علیہ السلام کو ان کی قوم عاد کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا۔ (ھود: ۵)
قوم عاد کو “ارم “بھی کہتے ہیں۔ ان کے خیموں یا مکانات میں بہت ستون تھے جن کی وجہ سے یہ لوگ ستون والے کہلاتے تھے۔ (شعراء: ۱۳۰، احقاف: ۲۱، الفجر:۸)
یہ بڑے طاقت ور اور قد آور تھے ان جیسی قوم دنیا میں پیدا نہیں کی گئی یہ لوگ مقام احقاف میں آباد تھے۔
احقاف یمن میں ایک پہاڑ ہے جو عمان اور حضر موت کے درمیان ہے۔ سمندر کے کنارے پر، اور یہ قوم عاد پہلے لوگ تھے جنہوں نے شرک اور بتوں کی عبادت شروع کی طوفان کے بعد اللہ نے ان میں ان کے بھائی ہود کو بھیجا۔
حضرت ہود علیہ السلام السلام نے دعوت و تبلیغ شروع کی اور قوم سے کہا اللہ تعالیٰ سے ڈرو، اللہ کی عبادت کرو اس کے علاوہ تمہارا کوئی الہ نہیں شرک اور تمام گناہوں سے توبہ کرو قوم نے انکار کیا اور کہا جن ہستیوں کی عبادت ہمارے آباء و اجداد کرتے تھے ان کو ہم نہیں چھوڑیں گے اگر آپ سچے ہیں تو عذاب لے آئیں۔ (اعراف:۷۰، ۷۱)
بالآخرحضرت ہودعلیہ السلام نے فرمایا اگر تم میری نصیحت سے منہ موڑتے ہو تو میری ذمہ داری ختم ہو گئی اب تم اپنے فعل کے خود ذمہ دار ہو دیکھو خبردار ہو جاؤ عنقریب تم پر اللہ کا عذاب نا زل ہو گا۔ (ھود: ۵۷)
اللہ کا عذاب
الغرض قوم عاد اپنے رسول کو مسلسل جھٹلاتے رہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنا ہلاکت خیز عذاب بھیج دیا اور وہ عذاب بڑا سخت اور درد ناک تھا۔ (شعراء:۱۳۹، ھود:۵۸)
عذاب کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ ایک بادل آتا ہوا دکھائی دیا لوگ کہنے لگے یہ تو بادل ہے ہم پر بارش ہو گی۔ ہود علیہ السلام نے کہا یہ تو وہ عذاب ہے جس کی تم جلدی کر رہے تھے یہ تو آندھی ہے جس میں درد ناک عذاب ہے، اور یہ آندھی مغرب کی طرف سے آئی اور ان پر چھا گئی۔ (احقاف:۲۴)
سخت آندھی چلنی شروع ہو گئی اور مسلسل سات راتیں اور آٹھ دن تک چلتی رہی۔ آندھی نے ہر چیز کو تباہ کر کے رکھ دیا ہر چیز ریزہ ریزہ ہو گئی۔ (الحاقۃ: ۶۔ ۷، الذاریات:۴۱۔ ۴۲، احقاف:۲۵)
کافر لوگ سب ہلاک ہو گئے ان کا نام و نشان مٹ گیا۔
اللہ تعالیٰ نے ہود علیہ السلام کو اور ایمان والوں کو عذاب سے بچا لیا۔ (ھود:۵۸)
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب آسمان پر بادل چھا جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا رنگ متغیر ہو جاتا کبھی گھر میں داخل ہوتے کبھی باہر نکلتے جب بارش ہو جاتی تو خوش ہو جاتے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب اس بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: اے عائشہ! شاید کہیں ایسا نہ ہو جائے جیسا کہ قوم عاد نے بادل دیکھ کر کہا تھا یہ بادل ہم پر بارش برسائے گا۔ لیکن اس میں عذاب تھا۔ (مسلم، ترمذی، بخاری)
حضرت ہود علیہ السلام کے پیغمبر تھے۔ قرآن پاک کی گیارویں سورہ آپ کے نام پر ہے۔
یمن اور عمان کے درمیان ” احقاف ” نامی سرزمین پر قوم عاد رہتے تھے اوروہاں پر نعمات کی فراوانی کے سبب خوشحال اور آرم دہ زندگي بسر کر رہے تھے، آہستہ آہستہ توحید کو چھوڑ کر بت پرستی اختیار کی اور فسق و فجور میں غرق ہو گئے اور ان کے ظالم اور وڑیرے مستضعف لوگوں پر ستم ڑھاتے تھے ۔ اللہ تعالٰی نے ان کے درمیان حضرت ہود علیہ السلام کو مبعوث بہ رسالت کیا۔
و اِلي عادٍ اَخا ہمْ ھوداً، قالَ يا قَومِ اعْبُدُو اللہ ما لَكُمْ مِنْ اِلہ غَيْرُ ہ
ترجمہ:اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ہود (کو بھیجا) انہوں نے کہا کہ میری قوم! خدا ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ تم (شرک کرکے خدا پر) محض بہتان باندھتے ہو۔
حضرت ہود علیہ السلام نے قوم کی ھدایت کے لیے نہایت کوشش کی مگر چند افراد کو چھوڑ کر کسی نے انکی تصدیق نہیں کی اور انکی نصیحتوں پر یقین نہیں کیا اور اسے خود سے دور کیا۔ قوم عاد نے حضرت ہود کی نصیحتوں کو قبول کرنے کی بجائے بت پرستی اختیار کی اور خدا پرستی چھوڑ دی اور اس الہی پیغمبر کو انکارا اور ہر دن اسے اذیت آزار پہنچاتے تھے۔ یہاں تک کہ آسمان پر کالے بادل چھاگئے اور قوم عاد کے جاہل لوگ کہنے لگے اس سے ہمارے لیے مفید بارش برسے گی۔
مگر حضرت ہود علیہ السلام نے ان سے کہا کہ : یہ بادل رحمت کے نہیں بلکہ غضب کے ہیں۔ مگر انہوں نے آنحضرت کی ایک بھی نہ سنی ۔ کچھ دیر بعد ہود کا کہا سچائی میں بدلتا گيااور تیز ہوائيں چلنی لگی جن کی رفتار انتی زیادہ تھی کہ گھوڑوں، مال مویشیوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ دے مارتی تھی۔
سات دن رات یہ تیز ہوائيں چلتی رہی اور اس دوران ریت کا طوفان اٹھا اور تمام مکانوں اور انسانوں پر گرا اور سب لوگ ہلاک ہو گئے صرف حضرت ہود اور ان کے چند اصحاب جنہوں نے امن کی جگہ پناہ لی تھی بچ گئے۔